81

ڈپٹی سپیکرکی رولنگ غیرآئینی قرار،اسمبلی بحال

اسلام آباد:ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنادیا ۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلائیں۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔عدالت نے متقفہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا، تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کریصدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، سپریم کورٹسپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلائیںچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سمیت5رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل تھے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بات توہمیں نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل کرنا آئین کے منافی ہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جاسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا، آج اسمبلی دوبارہ بحال ہوگئی تو اس کامینڈیٹ وہ نہیں ہوگا جوپہلیتھی، میرا فوکس نئے انتخابات پر ہے، چار سال سلیکٹڈ کہنے والے آج اسی اسمبلی کا وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، مناسب یہی تھا عمران خان عوام میں جاتے،وہی فیصلہ انہوں نے کیا۔ا س سے قبل سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کل رات بہت الارمنگ صورتحال ہوگئی، گزشتہ رات حمزہ شہبازکو نجی ہوٹل میں وزیراعلی بنا دیاگیا، آج سابق گورنرپنجاب حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان پروسیڈنگز میں پنجاب اسمبلی کو ٹچ نہیں کر رہے۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کل ٹی وی پربھی دکھایا گیاکہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں۔جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیا کر رہے ہیں پنجاب میں آپ لوگ؟ مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے: وکیل صدر عارف علوی در عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاموجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں، اگرپارلیمنٹ میں کوئی غیرآئینی حرکت ہو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی حل نہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگرپارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیرآئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی دادرسی نہیں ہو سکتی؟ جس پر علی طفر نے بتایا کہ برطانیہ کی ہاس آف کامن میں ایک ممبرکو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججزکے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسیہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیرقانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟ جس پر صدر پاکستان کے وکیل نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجوکیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لییفیصلہ عوام ہی کریگی۔عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پربات کرنی چاہیے: بیرسٹر علی ظفرجسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتمادکے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟عمران خان کے وکیل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتمادہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنیکا راستہ ہموار کیا، ہم نیکل بھی کہا تھاکہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95کے برخلاف ہے، دیکھناہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینیکا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورت حال قومی مفاد میں نہیں ہے۔امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنیکا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کو اپناتا ہوں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اتنیدنوں سے آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہر سوال کا جواب دوں گا، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لیے بیتاب ہیں۔وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 95کی حد اور اس میں دییگئے مقررہ وقت سے آگاہ ہوں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا اسپیکرکا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، اگر اسپیکرپوائنٹ آف آرڈر مستردکر دیتاکیاعدالت تب بھی مداخلت کرتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈرپر مستردہو سکتی ہے؟ جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پوائنٹ آف آرڈرپر تحریک مسترد ہونیکا واقعہ کبھی ہوا نہیں، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مستردکرنے کا اسپیکرکا اختیار ضرور ہے ، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہیں وہاں رولز بنائے جاتے ہیں: نعیم بخاری۔نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس حدتک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے۔28 مارچ کو ہی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ختم ہو چکی تھی، اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت کسی معاملے پرکوئی ڈیڈلاک نہیں کیونکہ کیس زیرسماعت ہے، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے؟ خالد جاوید خان نے بتایا کہ ہاس لیوگرانٹ کرتا ہے۔خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، کھلی عدالت میں قومی سلامتی کمیٹی کیمندرجات پر دلائل نہیں دے سکتا، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس معاملات پربریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب،کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔تحریک کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے: خالد جاوید خان۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحریک پیش کرنیکی منظوری کے لیے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کا ہوناضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہو گا؟ جسٹس منیب نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنیکی منظوری دیں توکیا وزیراعظم فارغ ہو جائیگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کے لیے86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں انتخابات ہی واحد حل ہے،کوئی اور حل کیوں نہیں تھا ؟ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرتی رہے۔چیف جسٹس نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں کوئی وکیل نہیں ،عام انسان ہوں، چند حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ڈپٹی اسپیکرکا اقدام غیر آئینی ہے تو وزیراعظم کا صدر کی مدد سے کیے گئے اقدام کی بھی کوئی وقعت نہیں، اگرڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے تو کوئی اسمبلی ایسے تحلیل نہیں ہوئی، ججز اور عدلیہ کی بہت عزت کرتاہوں اور آپ پر فخر ہے۔صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ غلطیوں پر سزائیں نہ ہوئیں تو غلط کو کوئی نہیں روک سکتا، اسپیکرکا اقدام غلط ہے تو پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے، ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر قانونی اور غیرآئینی تھا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اور اس دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ اسپیکر کا اقدام غلط تھا، اگر گذشتہ حکومت اتحادیوں کے ساتھ چل سکتی تھی تو اب کیوں نہیں؟ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ جوائن کیا، گارنٹی دیتا ہوں کہ آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2013 میں آپ کی جماعت کے پاس کتنی سیٹیں تھیں ؟ شہبازشریف نے جواب دیا کہ 2013 میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کیتحت موجودہ کارروائی کر رہے ہیں، یہ مفاد عامہ کا کیس ہے، رولنگ کو ختم کرکے دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں فریش الیکشن چاہتی تھیں،فریش الیکشن کا موقع ہے، آب کیوں نہیں چاہتے؟شہبازشریف نے جواب دیا کہ الیکشن چوری ہوا ہے،آئین توڑا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو آئین ٹوٹا وہ ہم بحال کرلیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہاس نیا لیڈر آف ہاس منتخب کرلیتا ہیتو ملک کو استحکام کی طرف لے جائیں گے، انتخابی اصلاحات لائیں گے جن سیفری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے، عام آدمی تباہ ہوگیا، اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کیجواب الجواب دلائل میں کہا کہ 2002 سے 2022 تک ہرحکومت اتحادیوں کی مدد سے بنی، 2002 سے کسی جماعت نے اکیلے حکومت نہیں بنائی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پہلے نئے انتخابات چاہتے تھے،ا ب قلابازی کھا گئے، ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے؟مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کرچکے ہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت سیاسی تقریر پر نہ جائے، آج متحدہ اپوزیشن کے پاس ارکان کی تعداد 177 ہے، عدالت کو دیکھنا ہے کہ اسپیکر نے کیا کیا؟ عدالت کہہ چکی کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے، اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی، ڈالرمہنگا اور روپے کی قدرکم ہوگئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک چھت کینیچے آپ ایک ساتھ بیٹھ سکتیہیں، آپ کا دل بڑا ہوگا لیکن انہوں نے تو آپ سے ہاتھ تک نہیں ملایا، سوشل میڈیا پر تنقیدکی جا رہی ہے، ہم صرف عبادت کے طور پرکام کر رہے ہیں، باہر روسٹرم پر میڈیا کے سامنیجو گفتگو ہوتی ہے اس سے احتیاط کرنی چاہیے، سیاست میں بہت تلخی آگئی ہے، محض جھوٹ بولنا ملعون بنا دیتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سچ بولنا شروع کردیں تو قوم کہاں سے کہاں چلی جائے، ہماری قوم قیادت کو ترس رہی ہے، آپ کے مقابلے باہر ہوتے ہیں،عدالت کی نظرمیں سب برابر ہیں، ہم سیاسی فیصلے نہیں کرسکتے، احتیاط کا فیصلہ کرسکتے ہیں، ہم پر اتنی تنقید ہوتی ہے،سوشل میڈیا ہم پر مہربان ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو روسٹرم پر بلایا تو انہوں نے کہا کہ بدنیتی سے حکومت نے یہ فیصلہ لیا، ڈپٹی سپیکرکی غیر قانونی رولنگ نے وزیراعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کاشکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی ، آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی 3 نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں ہے، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیرآئینی ہے، حکومت بناکر انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، انتخابی اصلاحات پر بل تیار ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے تمام دلائل سننے کے بعد ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ فیصلہ آج شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں