57

15رمضان یوم یتامیٰ اور الخدمت فاؤنڈیشن

51رمضان المبارک پاکستان سمیت مسلم دنیا میں یوم یتامیٰ کے طوپر منایاجاتاہے، عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیامیں اس وقت ہر 30 سیکنڈز میں دو بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔یونیسف کی رپورٹ کے مطابق دُنیا میں اِس وقت 15 کروڑ30 لاکھ بچے یتیم ہیں اور اِن بچوں میں 6کروڑ یتیم بچے صرف ایشیا میں موجود ہیں اور اِن بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ یتیم بچے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے.
عالمی یوم یتامی منانے کی تجویز پہلے پہل ترکی کی ایک سماجی تنظیم IHH نے پیش کی دسمبر 2013 میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اس دن کے حوالے سے قرار داد منظور کی اور پھر پاکستان کی قومی اسمبلی،اور سینٹ میں بھی قرارداد یں منظور ہوئیں۔اس دن کے منانے کا مقصد یتیموں کو احساس محرومی سے نکال انہیں معاشرے میں پذیرائی بخشتے ہوئے فعال اور مفید شہری بنانا ہے۔ وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں ناگہانی آفات، بدامنی،صحت کی ناکافی سہولیات‘حادثات‘ مسلم ممالک میں دہشت گردی کے باعث جہاں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں لاکھوں بچے بھی یتیم ہو گئے۔یہ بچے تعلیم و تربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی اور سماجی محرومیوں اوربے را روی کا شکار ہو رہے ہیں،پاکستان گزشتہ 2دہائیوں سے دہشت گردی،حادثات، قدرتی آفات سے متاثر ہے،اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 2017ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے صرف پاکستان میں مذکورہ وجوہات کی بناپر 17برس کی عمر تک کے 46لاکھ بچے اپنے والد سے محروم ہو چکے ہیں۔اس گھمبیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور آزاد کشمیرمیں غیر سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی خدمت کرنے والی این جی اوز نے ’’پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ تشکیل دیا ہے۔اس فورم میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان،قطر چیرٹی‘ صراط الجنۃ ٹرسٹ، خبیب فاؤنڈیشن،سویٹ ہومز‘ فاؤنڈیشن آف دی فیتھ فل‘ ہیلپنگ ہینڈفار ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف پاکستان،ہیومن اپیل، ریڈ فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، تعمیر ملت فاؤنڈیشن، ایدھی ہومز اورانجمن فیض الاسلام شامل ہیں۔جو مخیر حضرات کے تعاون سے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یتیم بچوں کی خدمت کررہے ہیں۔ جو کہ حقیقت میں ایک بڑا فلاحی کام ہے،
یتیم بچوں کے حوالے سے دین اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا کامل یقین ہے کہ یتیم کی کفالت اللہ کی شکر گزاری اور روز قیامت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے بہترین عبادت کی حیثیت رکھتا ہے،نبی مہر بان صلی للہ علیہ وسلم کے اقوال اور فرمودات قرآن سے کفالت یتامیٰ کی ترغیب ملتی ہے۔ صحابہ ؓاس سنت کی پیروی کی خاطر یتامیٰ کوتلاش کیا کرتے تھے۔یہ اللہ تعالیٰ کا نظام اور کسی معاشرے کا امتحان ہے کہ ان بچوں سے معاشرہ کیا سلوک کرتاہے، ان کو قومی و ملی سرمایہ خیال کرتاہے یا کوئی محکوم اور محتاج سمجھتا ہے۔ عموماً یتیم بچّہ، شفقتِ پدری سے محروم ہوکر رشتے داروں اور معاشرے کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں یتیموں کی بہتر طریقے سے پرورش اور تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنی سگی اولاد کی طرح یتیم بچّوں کے بھی تعلیمی اخراجات اپنی استطاعت کے مطابق برداشت کریں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں۔ یتیم کی کفالت اور پرورش کرنا، انہیں تحفظ دینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کے اَجر و ثواب کا اللہ نے خود وعدہ کر رکھا ہے۔جبکہ یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہو اوربدترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔‘‘یتیم بچّوں کے سرپرستوں کی ذمّے داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد ان کی بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں، خصوصاً یتیم بچیوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔یاد رکھیے! یتیم کی آہیں اور بددُعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روزِ قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہوگا۔ اخلاقیات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو درجہ ہم اپنی اولاد کو دیتے ہیں، وہی حیثیت یتیم کو بھی دیں۔ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم آگے بڑ ھ کر اپنی زبان، عمل اور رویوں سے معاشرے کو یتیم دوست بنائیں۔ ان کی زندگی میں امیدکو روشن کریں،ہم ان کا حق ادا کریں گے تو یہ کاوش یقیناً ہمارے لیے اجر عظیم کی بھی ضمانت ہوگی۔ معاشرے کے ارباب اختیار سے والدین جیسی شفقت کی امید لگائے یہ بچے ہماری توجہ اور پیار کے متقاضی ہیں۔ سرکاری، سماجی اور انفرادی سطح پر ان کی کفالت کے حوالے سیمنظم منصوبہ بندی اور مربوط قانون سازی ہونی چاہیے۔
یتامی کی کفالت ایک اہم اور بنیادی ذمہ داری ہے جو حکومت کو اپنی ترجیح میں رکھنی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے اور یتیم بچوں کی کفالت کے حوالے سے خصوصی پروگرامات کرے۔سیاسی رہنماؤں پر زرد دیاجائے کہ وہ یتیم بچوں کی وراثت کے تحفظ کے لیے قانون سازی کریں، ان کی حفاظت، بہتر پرورش نیز ان کو بے راہ روی، نشہ اوردیگر خطرات سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔سرکاری و نجی تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور دیگر اداروں میں یتیم بچوں کے لیے رعایت مقرر کی جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پابند کیا جائے کہ ہر این جی او اپنے ہاں یتیم بچوں کا شعبہ قائم کرے گی اور اپنے وسائل کا ایک حصہ اس شعبے کے لیے وقف کرے گی۔ کفالت یتیم کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔ جو افراد یتیم بچوں کی کفالت کررہے ہوں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
پاکستان میں کئی فلاحی تنظیموں نے یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایاہواہے،انہی میں ایک تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کفالت یتامیٰ کے حوالے سے اندرو ن و بیرون ملک شہرت رکھتی ہے،اس ادارے کے تحت آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں 19 ہزار سے زائد بچوں کی ان کے گھروں پرکفالت ہورہی ہے۔بچوں کی تعلیم، تربیت،صحت، خوراک اور ہم نصابی سرگرمیوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے،،بچوں کی تعلیمی کارکردی کی رپورٹ باقاعدگی کے ساتھ بچوں کی کفالت کرنے والے مخیر حضرات کو ارسال کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ والدین سے محروم بچوں کی پرورش و تربیت، قیام و طعام، تعلیم و صحت اور ذہنی و جسمانی نشو نما کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے راولا کوٹ، باغ، اٹک، پشاور، مانسہرہ، اسلام آباد، شیخوپورہ راولپنڈی، گوجرانوالہ، لوئر دیر،کراچی،ہالہ اور مری سمیت 18 الخدمت آغوش سینٹرزقائم ہیں جہاں دیڑھ ہزار سے زائد بچے قیام پذیر ہیں، جن کی تعلیم و تربیت کے لئے قابل ترین انتظامی عملہ موجود ہے جو بچوں کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے صحت مند ماحول کا اہتمام کرتاہے اس کے ساتھ ساتھ ان سینٹرز میں بچوں کے لئے سکول کی سہولت، کمپیوٹر لیب، لائبریری،اسپورٹس گراؤنڈ، ان ڈور گیمز اوربچوں کی نفسیاتی نشو نما کے لیے مختلف لیکچرز اور تعلیمی ٹورز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے دیگر سینٹرز کے تعمیراتی منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔
رمضان المبارک میں ہر عمل کا اجر بڑھ جاتا ہے،زکوٰۃ سال کے کسی بھی مہینے یا دن ادا کی جا سکتی ہے لیکن ہر وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہے کوشش کرتاہے کہ ماہ مبارک میں زکوٰۃادا کرے، اہل خیر حضرات اس ماہ روزہ داروں کو افطار و سحری کرواتے ہیں،غریب گھرانوں میں راشن تقسیم کرتیہیں،والدین،اہل خانہ اور رشتے داروں کو تحائف پیش کرتے ہیں،اس ماہ مبارک میں یتامیٰ کی کفالت کا ذمہ اٹھانے کا اجر اور بھی بڑھ جاتاہے۔ مخیر حضرات یتامی کے اس بڑے پروگرام میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ اپنا دست تعاون بڑھائیں اور نیکی کے اس عظیم کام میں اپنا کردار ادا کر کے معاشرے کے ان یتامی کو اپنے بچوں کی طرح گود میں لیلیں۔الخدمت فاؤنڈیشن کے آرفن کیئر پروگرام کے تحت آپ بھی ایک یتیم بچے کی کفالت 4500 روپے ماہانہ اور 54 ہزار روپے سالانہ دے کر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جس کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا ہو وہ کسی یتیم کو اپنی کفالت میں لے لے اور جس کو اولاد کی نعمت حاصل ہو وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک یتیم کو بھی اپنا ہی بچہ بنا لینے کا عزم کرے تو ایک بڑی تعداد کی کفالت ممکن ہو سکتی ہے۔آپ اس عظیم کام میں حصہ دار بننے کے لئے ہمارے درج ذیل اکاؤنٹ نمبر میں برائے راست تعاون بھی کر سکتے ہیں۔
SONERI BANK
Account title: Alkhidmat Foundation AJK
Account No. 001420000290891
IBAN: PK72 SONI0001420000290891

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں